نفلی نماز

18963

نفل نماز کی تعریف

نفلی نماز

فرض او ر واجب نماز کے علاوہ نماز کو نفل نماز کہا جاتا ہے۔

نفلی نماز کی فضیلت

1 ۔ نفلی نماز اللہ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔حدیث قدسی میں وارد ہوا کہ اللہ فرماتا ہے " جب تک میرا بندہ نوافل کے قریب رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس جب میں اس سے محبّت کرتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سُنتا ہے۔ اور اسکی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اسکا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکا پاؤں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسکو دیتا ہوں۔ اور اگر مدد طلب کرے تو میں مدد کرتا ہوں۔ "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

2 ۔ نفل نماز فرئض کی کمی کو پورا کرتی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے" کہ بندوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب کیا جائیگا وہ نماز ہے اور فرمایا: رب کریم فرشتوں سے سوال کرتا ہے کہ دیکھو میرے بندے کی نماز میں کوئی کمی تو باقی نہیں رہی حالانکہ رب کریم ان سے زیادہ جانتا ہے ۔ اور رب کریم فرماتے ہیں کہ اگر میرے بندے کی نمازپوری ہے تو اس کے لیے پوری نماز لکھی جائے۔ اور اگر اسکی فرض نماز میں کوئی کمی باقی رہے تو اسکو نوافل سے پورا کیا جائے۔ پھر باقی اعمال اس پر مرتب کیے جائیں گے "۔[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

3 - نفلی نماز گھر میں افضل ہے نفلی نماز مسجد سے گھروں میں افضل ہے مگر وہ کہ جس میں جماعت مشروط کی گئی ہے۔ جیسے تراویح کی نماز رمضان میں۔ آپ ﷺ نے فرمایا " پس بے شک آدمی کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔ سوائے فرض نماز کے"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

نفل نماز کی اقسام

نفل نماز کی بہت ساری اقسام ہیں۔ ان میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں۔

پہلا: مؤکدّہ سُنتیں[الراوتب: رابۃ کی جمع ہے۔ وہ ایسی چیز ہے جو دوام والی ہو]

وہ سُنتیں جو مؤکدہ فرائض کے تابع ہیں۔ وہ سُنتیں مؤکدّہ ہیں۔ اور کُل سُنتیں مؤکدہ دس یا بارہ رکعتیں ہیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں

- ظہر سے پہلے دو یا چار رکعتیں :

- اور دو اسکے بعد .

- مغرب کے بعد دو رکعتیں ہیں .

- پھر عشاء کے بعد دو رکعتیں ہیں۔

ابن عمر رضي الله عنه سے مروی ہے کہ" میں نے نبی ﷺ پاک سےدس رکعتیں یاد کیں۔ دو رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو اسکے بعد۔ دو مغرب کے بعد اپنے گھر میں اور دو عشاء کے بعد اپنے گھر میں اور دو صبح کی نماز سے پہلے"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

اور اسی طرح کی حدیث حضرت عائشہ رضي الله عنها سے بھی ثابت ہے۔ مگر وہ ظہر سے پہلے چارکا ذکر کرتی ہیں۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

اور مؤکدہ سنتوں میں سے افضل ترین سُنت وہ ہے کہ جس پر نبی ﷺ پاک نے حضر اور سفر میں دوام اختیار کیا۔کیونکہ حضرت عائشہ رضي الله عنہا " فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نوافل میں اتنے پابند نہیں تھے جتنے فجر کی دو سنتوں کے پابند تھے اور فجر کی دو رکعتوں میں تخفیف کرنا سنت ہے"۔ [یہ حدیث متفق علیہ ہے]

حضرت عائشہ رضي الله عنہا سے ثابت ہے " کہ آپ ﷺ فجر کی دو سنتوں میں اتنی تخفیف کرتے تھے جیسےکہ آپ ﷺ نے صرف سورۃ فاتحہ کی قراءت کی ہے "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

پہلے کی سُنتیں فرض نماز بعدکی سُنتیں
دو رکعتیں فجر -----
چار رکعتیں ظہر دو رکعتیں
----- عصر -----
----- مغرب دو رکعتیں
----- عشاء دو رکعتیں
فجر کی سنتوں کی قضاء جائز ہے:

1۔ اگر فجر کی سنتیں ادا نہیں کی تو فجر کی نماز کے بعد قضا کرے گا کیونکہ قیس بن عمرو سے ثابت ہے، فرماتے ہیں کہ" رسول ﷺ پاک نے ایک آدمی کو دیکھا جو صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھ رھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا صبح کی نمازکی دو رکعتیں ہیں تو آدمی نے کہا کہ میں نے ان سے پہلے دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں تو ان کو میں اب پڑھ رہا ہوں۔ تو آپ ﷺ خاموش رہے " [اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

2۔ سورج کے طلوع ہونیکے بعد: آپ ﷺ کا فرمان ہے" جو فجر کی دو رکعتیں نہ پڑھے تو اسے چاہیے کہ سورج کے طلوع ہونیکے بعد پڑھ لے "[ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]

مسائل

ظہر کے بعد چار رکعتوں کی فضیلت بھی ثابت ہو گئی ہے۔ آپ ﷺ کے قول کی وجہ سے" جس نے ظہر سے چار رکعتیں ادا کیں اور اسکے بعد تو اللہ نے اس پر آگ کو حرام کردی " ۔[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے۔ جب نیند یا بھول کی وجہ سے سُنتیں چھوٹ جائیں تو ان کی قضاء جائز ہے۔

اگرچہ اوقات مکروہہ میں ہی کیوں نہ ہو۔ " کیونکہ آپ ﷺ سے ثابت کہ ظہر کی سُنت غیر مؤکدہ عصر کے بعد پڑھیں مؤکدہ سنتوں کے بعد عصر سے پہلے کی چار رکعت مستحب ہیں "۔ [اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

غیر مؤکدہ سنتوں کی طرح عصر، مغرب اور عشاء سے پہلے بھی نوافل مشروع ہیں۔ " اپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے اور آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا اور تیسری مرتبہ کہا کہ جو چاہےکیونکہ وہ چھوٹ گئیں تھیں "۔[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

دوسری: قسم وتر کی نماز

وتر کا حکم اور اسکی فضیلت

وتر سنت مؤکدہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا " بے شک اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے تو اے اہل قرآن وتر پڑھا کرو"[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے] اور آپ ﷺ حضر و سفر میں وتر پر دوام کرتے تھے۔

وتر کا طریقہ

1۔ وتر کی کم سے کم مقدارایک رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ گیارہ یا تیرہ ہیں۔ تو دو دو کر کے انکو پڑھے۔ پھر ایک کو وتر بنا کر پڑھے۔

2۔ اور کم ترین درجہ تین رکعتیں ہیں۔ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت پڑھے اور سلام پھیر دے۔ اور اسکے لیے یہ بھی جائز ہے کہ تیسری رکعت کو متّصل ایک تشہد کے ساتھ ہی پڑھ لے اور مستحب یہ ہے کہ پہلی میں فاتحہ کے بعد سورۃ الاعلیٰ پڑھے اور دوسری میں سورہ کافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص۔

کیونکہ ابی بن کعب سے روایت ہے کہ "نبی ﷺ پاک وتر کی پہلی رکعت میں «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» اور دوسری میں «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» اور تیسری میں «قل ھو اللہ ھو احد» پڑھتے تھے"۔[ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے]

نماز وتر کا وقت

عشاء کی نماز کے بعد سے فجر کے طلوع ہونے تک ہے اوررات کی آخری تہائی میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ حدیث جابر کی وجہ سے بے شک نبی ﷺ پاک نے فرمایا "جس کو یہ خوف ہو کہ وہ آخر رات میں نیند سے نہ اُٹھ سکے گا تو پہلے حصے میں پڑھ لے اور دوسری دفعہ نہ پڑھے"[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

- آپ ﷺ کاارشاد ہے " ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں" [اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

-"جو یہ لالچ رکھتا ہے کہ وہ آخر رات میں اُٹھ جائیگا تو وہ آخر رات میں وتر پڑھے۔ بے شک آخر رات کی نماز کی گواہی دی گئی ہے۔ اور یہ افضل ہے"۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

نماز وتر میں دعا

دعا وتر کی آخری رکعت میں مشروع ہے۔ [اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے] رکوع میں جانے کےبعد یا رکوع سے اُٹھنے کے بعداور جو دعا [اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

وارد ہوئی ہے وہ پڑھے" اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت، فإِنك تقضي ولا يقضي عليك، إِنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت "[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]

اور امام دعائے قنوت پڑھے گا اور مقتدی آمین کہے گا لیکن حمد کے مقام پر حمد نہیں کرے گا بلکہ خاموش رہے گا جیسے کہ انّک تقضی بالحق اسکا معنی ہے کہ اے اللہ تو حق کا فیصلہ کرنے والا ہے تو اس مقام پر مقتدی خاموش رہے گا۔

مسائل

1۔ سنت یہ ہے کہ وتر کے بعد کہے " سبحان الملک القدوس " [اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے] تین مرتبہ اپنی آواز کو کھینچے اور تیسری رکعت میں اسکو بلند کرے۔

2۔ دعا کے بعد چہرے کو چھونا جائز نہیں ہے نہ وتر میں نہ وتر کے علاوہ کیونکہ آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔

3۔ اور قنوت سارا سال جائز ہے اسکو رمضان کے آخری نصف کے ساتھ خاص نہ کرے اور قنوت تمام فرضوں میں مستحب ہے تمام نمازوں کے اختتام کے وقت۔

4- قرآن کے ختم ھونے کی دعا نماز میں پڑھنا جائز نہیں ہے۔

وتر کی دن میں قضاء کرنا

وتر کی دن میں قضاء کرنا جائز ہے اور قضاء دو رکعت کےحساب سے ہو گی۔کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ جب " آپ ﷺ کی رات کی نماز کسی تکلیف کیوجہ سے فوت ہو جاتی تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے "۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

تیسری : قسم نماز تراویح

تراویح: وہ رمضان میں رات کی نماز ہے اور اسکا نام تروایح اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ نماز کی طوالت کے سبب ہر چار رکعت کے بعد راحت فرمایا کرتے تھے۔

نماز تراویح کی فضیلت

تراویح سنت مؤکدہ ہے۔ آپ ﷺ نے اسکو رمضان میں شروع فرمایا اور صحابہ کرام کی جماعت کو مسجد میں امامت کروائی اور پھر فرض ہونے کے خدشے سے چھوڑ دیں اسکے بعد صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے اس سنت کو اپنایا۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

نماز تراویح کی رکعتوں کی تعداد

نماز تراویح کی افضل ترین تعداد گیارہ رکعت ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے اکثر ایسا کیا ہے کیونکہ جب حضرت عائشہ سے آپ ﷺ کی نماز کے بارے

میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ رمضان میں کیسے نماز ادا کرتے تھے تو حضرت عائشہ نے جواب دیا "کہ آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں کرتے تھے"۔[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

عشاء کی نیت کے ساتھ نماز تراویح

جو عشاء کی نماز سے لیٹ ھو گیااور آیا تو لوگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے تو ان کے ساتھ عشاء کی نماز کی نیت کے ساتھ شامل ھو جائے جب امام سلام پھیرے تو وہ کھڑا ھو کر اپنی نماز پوری کرے

مسائل

1۔ سارے سال میں رات میں قیام کرنا سنت موکدہ ھےاور اسکو چھوڑنا مکروہ ہے عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی کا تذکرہ کیا گیا کہ وہ ساری رات سوتا رہا اور فجر کی نماز کے لئے نہ اٹھا تو آپ ﷺ نے فرمایا "شیطان نے اسکے کانوں میں پیشاب کیا "[یہ حدیث متفق علیہ ہے]

اوریہ مکروہ ہے کہ اگر کوئی شخص رات کے قیام کا عادی ہو تو اسکا رات کا قیام ترک کرنا مکروہ ہے۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا " اے عبداللہ فلاں کی طرح نہ ہو جا جو رات کو قیام کرتا تھا اب اس نے چھوڑ دیا ہے "۔

2۔ مستحب یہ ہے کہ رات سوتے وقت رات کو اٹھنے کی نیت کرے اور جو بیدار ہو مسنون اذکار کا ورد کرے اور نیند سے جاگنے پر اپنے چہرے کو مل لے اور مسواک کرے،حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ جب نیند سے اٹھتے تھے تو مسواک کا استعمال کرتے تھے ۔ [یہ حدیث متفق علیہ ہے]

اور آسمان کی طرف دیکھتے اور آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرماتے تھے۔ ابن عباس رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ہیں جس نے حضرت میمونہ کے گھر رات گزاری جو کہ حضرت ابن عباس کی خالہ ہیں تو میں تکیے کی چوڑائی کی طرف لیٹ گیا اور آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والے اسکی لمبائی میں لیٹ گئےتو آپ ﷺ سو گئے تقریباً آدھی رات ہو گئی کہ آپ ﷺ بیدار ہوئے اور اپنے چہرے کو مل رہے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف دیکھا پھر آل عمران کی دس آیات پڑھیں اور ایک روایت میں آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں۔[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

مستحب یہ ہے کہ جب رات کی نماز کے لئے بیدار ھو تو اپنی بیوی کو بھی جگا لے آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے " جب آدمی اپنی گھر والی کو رات کو جگاتا ہے اور وہ دونوں نماز پڑھتے ہیں تو وہ دونوں ذکر کرنے والوں میں اور ذکر کرنے والیوں میں لکھ دئیے جاتے ہیں "۔[ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے]

3۔ اور جس پر رات کی نماز میں نیند غالب ہو تو وہ نمازچھوڑ کر سو جائے حتی کہ نیند چلی جائے حضرت عائشہ رضي الله عنها سے مروی ہے بیشک رسول ﷺ نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی نماز میں اونگھ لیتا ہے تو اسکو چاہیے کہ وہ سو جائے یہاں تک کہ اسکی نیند جاتی رہے "۔ [یہ حدیث متفق علیہ ہے]

نماز کے لئے جاگن

4- "جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور وہ اونگھنے والا ہو تو شاید وہ استغفار کی جگہ اپنے آپ کو گالیاں دے اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسکی دعا قبول کروں اور کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں اور کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے میں اسکی بخشش کروں "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

چوتھی قسم چاشت کی نماز

چاشت کی نماز کے وقت

کا تعیّن کچھ اس طرح ہے کہ جب سورج ایک نیزے کی مقدار میں بلند ہو جو کہ تقریباً طلوع سورج کے بعد 45 منٹ کے گذر جانے کے بعد کا وقت ہے۔

اور چاشت کے وقت کی انتہا زوال شمس سے پہلے تقریباً ایک گھنٹہ یا 45 منٹ ہے اور افضل وقت یہ ہے " رسول ﷺ نے فرمایا اوَّابِينَ کی نماز ہ جب اونٹنی کے بچوں کے تلوے سورج کی گرمی سے جلنے لگیں "۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

چاشت کی نماز کی فضیلت

اللہ نے حدیث قدسی میں فرمایا " اے ابن آدم تو میرے لئے دن کے اوّل حصے میں چار رکعتیں پڑھ میں اسکو آخرت میں تمہارے لیے کافی کردوں گ " [ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

چاشت کی نماز کی تعداد

دو،چار یا چھ رکعتیں پڑھنا جائز ہے یا آٹھ رکعتیں اور صحیح یہ ہے کی ہر دو رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھے کیونکہ یہ آپ ﷺ کے فعل سے ثابت ہے۔ " ور یہ اس سے کفایت کرے گا بدن کی تمام ہڈیوں اور جوڑوں سے۔ چاشت کی نماز جس وقت اونٹنی کے بچے کے پاوں جلنے لگیں " [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

چاشت کی نماز انسان کے تمام جوڑوں پر جو صدقہ ہر صبح لازم ہوتا ہے اسکی کفایت کرتا ہے کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر صبح تمہارے ہر جوڑ پر صدقہ ہوتا ہے۔

نبی ﷺ پاک نے فرمایا " تم میں سے ہر جوڑ پر جب وہ صبح کرتا ہے تو صدقہ ہوتا ہے ۔ ہر تسبیح صدقہ ہے۔ ہر تحمید صدقہ ہے۔ ہر لا الہ الااللہ صدقہ ہے۔ ہر تکبیر صدقہ ہے۔اور نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا صدقہ ہے۔ ان تمام صدقات کو چاشت کی دو رکعت نماز کفایت کر جاتی ہے "۔ [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

اور جو شخص چار رکعت چاشت کی نماز ادار کرے تو یہ نماز اس کے پورے دن کے لیے کفایت کر جاتی ہے جیسا کہ حضرت نعیم بن ھمار الغطفانی سے مروی ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایا " کہ رب اپنے بندے سے کہتا ہے کہ اے ابن آدم اگر تو دن کے ابتدائی حصے میں چار رکعت نماز ادا کرے گا تو میں اسکو تمہارے لیے قیامت کے دن کافی کر دوں گا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے اور پھر اللہ کے ذکر میں مصروف رہا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا تو اس کے لیے ایک کامل حج اور عمرے کا ثواب ہے"۔[ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے]

۔ آپ ﷺ نے فرمایا " جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اور بیٹھا رہا اور اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں تو اسکے لیے گویا حج اور عمرے کا ثواب ہے"[ یہ امام ترمذی سے روایت اور البانی نے اس صحیح جامع میں تصحیح کی ہے]

پانچواں۔ تحیۃ المسجد کی نماز

وہ دو رکعتیں ہیں جو مسجد میں داخل ہوتے ہی بیٹھنے سے پہلے مشروع کی گئی ہیں۔

اور اسکا حکم یہ ہے کہ وہ سنت مؤکدہ ہیں۔ اور اسکی دلیل آپ ﷺ کا قول ہے" اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتو فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ"[یہ حدیث متفق علیہ ہے]

اور فرض نماز کا وقت ہو اور اس نے فرض نماز ادا کی یا سنت مؤکدہ ادا کی جو کہ فرض نماز سے پہلے ادا کی جاتی ہیں تو اس صورت میں تحیّۃ المسجد ادا کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

جیسا کہ کوئی شخص ظہر کی نماز ادا کرنے مسجد میں داخل ہوا اور چار رکعت سنت مؤکدہ ادا کی تو اس کے لیے تحیۃ المسجد ادا کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔

تحیّۃ المسجد

چھٹی قسم استخارہ کی نماز

وہ دو رکعتیں ہیں جن کو انسان کسی معاملے میں غوروفکر کے لیے پڑھتا ہے اس معاملے کو کرنے سے پہلے۔ استخارے کے لیے دو رکعتیں مشروع ہیں۔ انکو بندہ اس وقت پڑھتا ہے جب کسی اختیاری معاملے میں غور وفکر کرنا چاہتا ہے۔

اسکو شروع کرنے سے پہلے اور اسکے بعد دعا میں شروع ہو۔ اور آپ ﷺ صحابہ کو اسکی تعلیم دیتے تھے جیسے کسی سورۃ قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔

دعائے استخارہ:

آپ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کسی معاملے کا ارادہ کرے تو اسکو چاہیے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نماز ادا کرے اور یہ دعا پڑھے " إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي -أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ- فَاقْدُرْهُ لِي، وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ،وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي، وَمَعَاشِي، وَعَاقِبَةِ أَمْرِي -أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ- فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي -قَالَ- وَيُسَمِّى حَاجَتَهُ "[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے]

استخارہ کی علامات

استخارے کو بار بار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور یہ بھی شرط نہیں کہ استخارہ کرنے والے کو ایک ہی استخارہ میں حال پتہ چل جائے اور وہ استخارہ کرتا رہے اور اپنے معاملے میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے خیر طلب کرتا رہے۔ اس طرح کرنے میں کوئی گناہ یا قطعہ رحمی کا شبہ لازم نہیں آتا۔اگر اس کو کوئی اشارہ ملے تو وہی اسکے لیے خیر ہے۔ اگر اشارہ نہ ملا تو یہ بھی اسکے لیے بہتر ہو گا۔

ساتویں قسم وضو کے بعد نماز کی دو رکعتیں

جیسا کہ ابو ہریرہ رضي الله عنهسے ثابت ہے کہ رسول ﷺ اللہ نےحضرت بلال رضي الله عنه کو فجر کی نماز کے وقت کہا کہ " اے بلال رضي الله عنه مجھے اپنے بہترین عمل کے بارے بتا جو تم نے اسلام میں کیا کیونکہ میں نے تمہارے قدموں کی چاپ جنت میں اپنے آگے سنی۔ تو حضرت بلال رضي الله عنه نے جواب دیا کہ میں نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس کی میں امید رکھتا ہوں۔ ہاں جب کبھی بھی میں دن یا رات میں وضو کرتا ہوں تو اس وضو کے ساتھ دو رکعت نماز نفل ضرور پڑھ لیتا ہوں "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے]

آٹھویں : قسم مطلق نفلی نماز

وہ کسی زمانے یا کسی سبب کے ساتھ مقید نہیں ہے اور مطلق نماز نفل ممنوع اوقات کے علاوہ تمام اوقات میں پڑھی جا سکتی ہے۔

مطلق نفل نماز کی مثالیں (رات کا قیام)

آپ ﷺ نے فرمایا: "فرض نماز کے بعد افضل ترین تماز رات کی نماز ہے"۔ [اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

اور آپ ﷺ نے فرمایا : " بے شک جنت میں ایک کمرہ ہے اسکے اندر سے باہر نظر آتا ہے اور باہر سے کمرے کا اندرونی منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اعرابی کھڑا ہوا تو اس نے کہا یہ کس کے لیے ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو اچھی بات کرتا ہے اور کھانا کھلاتا ہے اور ہمیشہ روزے رکھتا ہے اور جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں تو وہ نماز پڑھتا ہے "۔[ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]

طبی لحاظ سے رات کے قیام کا جائزہ

رات کے قیام سے انسانی جسم میں کولیسٹرول کم ہوتے ہیں اور طبی تحقیق کے مطابق کولیسٹرول کی زیادتی رات کے آخری پہر میں زیادہ ہوتی ہیں اور اس سے جسم میں شوگر کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

نماز کے ممنوعہ اوقات

1۔ نماز فجر کے بعد طلوع شمس تک یعنی جب تک سورج ایک نیزے کی بلندی تک نہ پہنچے، گھڑی کے حساب سے یہ نماز فجر کے بعد 45 منٹ کا وقت ہوتا ہے۔

2۔ عین زوال کا وقت

3۔ عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک کیونکہ عقبہ بن عامر کی حدیث ہے وہ فرماتے "ہیں کہ تین اوقات میں نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے اور ان اوقات میں مُردوں کو دفن کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ سورج کے طلوع ہونے تک یہاں تک کہ ایک نیزے کی مقدار تک بلند ہو جائے اور عین زوال کے وقت یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے اور جب ڈھلنے لگے یہاں تک کہ غروب ہو جائے"۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

ممنوعہ اوقات میں اسباب والی نمازیں

وہ نمازیں جو اسباب کی بنا پر ادا ہوتی ہیں جیسا کہ تحیّتہ المسجد اور جنازے کی نماز۔ یہ نمازیں ممنوعہ اوقات میں بھی ادا کی جا سکتی ہیں۔