امام اور مقتدی

10863

امامت کے زیادہ حقدار کا بیان

نیچے دی گئی ترتیب پر امام کا تعیّن کیا جائےگا۔

سب سے پہلے امامت کا مستحق ہے اللہ کی کتاب کا سب سے بڑا قاری اور یہ وہ آدمی ہے جو اللہ کی کتاب کا حافظ بھی ہو اور اسکے احکام کو سمجھنے والا بھی ہو۔

دوسرے نمبر پر امامت کا مستحق ہے وہ آدمی جو سنت کا سب سے بڑا عالم ہو۔اس کو زیادہ پڑھنے والا، وہ اسکے احکام کو زیادہ سمجھنے والا ہو۔

تیسرے نمبرپر امامت کا وہ آدمی مستحق ہے جوہجرت کے اعتبار سے مقدّم ہو یعنی وہ آدمی جو کفر کے شہروں سے اسلام کے شہروں کی طرف ہجرت کرنے کے اعتبار سے مقدّم ہو۔ اگر یہ ہجرت نہ ہو تو، توبہ اور گناہوں سے ہجرت کے اعتبار سے مقدّم ہو۔

چوتھے نمبر پر وہ آدمی مستحق ہے جو عمر کے اعتبار سے بڑا ہے اور عمر کا اعتبار اس وقت کیا جائے گا جب پہلے ذکر کی گئی چیزوں میں سب برابر ہوں۔اور دلیل ابو مسعود انصاری رضي الله عنه کی سابقہ حدیث ہے۔

فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا "قوم کی امامت کتاب اللہ کا قاری کرے۔ اگر قرات میں برابری ہو تو سنّت کو زیادہ جاننے والا ہو۔ اگر سنت میں بھی برابر ہوں تو ہجرت کے اعتبار سے مقدّم ہو امامت کرائے۔ اگر ہجرت میں بھی ایسا ہو تو جو اسلام کے اعتبار سے مقدّم امامت کرائے [(سلما) یعنی اسلام کے اعتبار سے مقدم ہو ایک روایت میں (سنا) ہے] "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

۔ اس ترتیب کا اس وقت لحاظ رکھا جائے گا جب مسجد کا کوئی امام مقرر کیا جا رہا ہو یا لوگوں کی جماعت میں کوئی تنخواہ والا امام نہ ہو (امام براتب: اس امام کو کہتے ہیں جس کی تقرری بطور تنخواہ مسجد میں ہوئی ہوتی ہے )

اور اگر لوگوں کی جماعت میں کوئی مقرر امام ہو یا گھر کا مالک ہی امام ہو یا خاندانی امام میں سے کوئی آدمی موجود ہو تو وہ دوسروں پر امامت میں مقدم ہے یعنی امامت کا زیادہ مستحق ہے [گویا کہ وہ بادشاہ امیر یا کسی جگہ کا رئیس (سردار) ہو] ۔

کیونکہ رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں " کوئی بھی آدمی دوسرے آدمی کو اس کی بادشاہی میں اسکی اجازت کے بغیر امامت نہ کرائے اور نہ ہی اسکے گھر میں اس کے ساتھ مخصوص تکیہ پر اسکی اجازت کے بغیر بیٹھے [ التکرمہ: آدمی کے اس تکیے کو کہتے ہیں جس پر وہ بیٹھتا ہے اور وہ گھر کے لوگوں کےساتھ خاص ہوتاہے ] "[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

امام اور مقتدیوں کی جگہ

1۔ جب مقتدی اکیلا ہو تو سنت یہ ہے کہ امام کے دائیں جانب اسکے برابر کھڑا ہو۔

کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں" ایک رات میں نے نبی ﷺ پاک کے سات نماز پڑھی۔ میں آپ ﷺ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ ﷺ نے میرے سر کو پیچھے سے پکڑا اور دائیں جانب کھڑا کر دی"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے ]

2۔ اگر لوگ دو یا اس سے زیادہ ہوں تو امام ان کے سامنے یعنی صف کے درمیان میں کھڑا ہوگا کیونکہ حضرت جابر اور جبار رضي الله عنه فرماتے ہیں "کہ نماز پڑھنے کے لیےان میں سے ایک آپکے دائیں جانب کھڑا ہوا اور دوسرا بائیں جانب کھڑا ہو۔حضرت جابر رضي الله عنه فرماتے ہیں آپ ﷺ نے ہمارے ہاتھوں کو پکڑا اور پیچھے ہٹایا حتیٰ کہ پیچھے کھڑے ہو گئے"۔[ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

3۔ صف کے پیچھے اکیلے کی نماز: منفرد کی نماز صف کے پیچھے بغیر کسی عذر کے درست نہیں ہے البتہ اگر صف پوری ہو جائے اور کہیں بھی کھڑے ہونے کی جگہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔

عورتوں کے کھڑے ہونیکی جگہ

1۔ جب عورتیں نماز جماعت پڑھیں تو سنت یہ ہے کہ انکی امام انکے درمیان کھڑی ہو، ان سے آگے کھڑی نہ ہو۔

2۔ جب مرد عورت کو امامت کرائے تو عورت اسکے پیچھےکھڑی ہو اور جب مردوں کے ساتھ نماز پڑھے تو صف کے پیچھے کھڑی ہو۔

3۔ جب عورتوں کی جماعت مردوں کے ساتھ نماز پڑھے تو سنت یہ ہے کہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہو۔

اور انکی صفیں مردوں کی صفوں کہ طرح ہوں گی۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله عنهسے مروی ہے کہ بے شک رسول ﷺ اللہ نے فرمایا "عورتوں کی بہترین صف آخری ہے اور بد ترین اوّل ہے"[ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے]

عورتوں کی نماز کی تصویر
عورت کا مردوں کے قریب کھڑے ہونے کی تصویر

امام کی اقتداء کے احکام

1۔ امام کی اقتداء اس شخص کےلیے صحیح نہیں ہے جو اپنے گھر میں ہو اور مکبّریاسپیکر کی آواز پر اکتفا کرتے ہوئے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا شروع کر دے۔

2۔ امام کی اقتداء مسجد کے باہر صحیح ہے جب صفیں ملی ہوئی ہوں۔

3۔ مقتدیوں کےلیے امام کی اقتداء صحیح ہے اگر وہ چھت پر ہوں یا امام سے نیچے تہہ خانے میں ہوں۔ جب وہ امام کی آواز کو سنیں۔

4۔ نفل ادا کرنے والے کے لیے، فرض ادا کرنےوالے کی اقتداء صحیح ہے۔ یا اسکے برعکس جیسے عشاء کی نماز تراویح پڑھانے والے امام کے پیچھے یا اس شخص کے پیچھے جو فوت شدہ نماز پڑھ رہا ہوتاکہ اسکو جماعت کا اجر مل سکے۔

جابر بن عبداللہ رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ہیں "حضرت معاذ نبی ﷺ پاک کے ساتھ نماز ادا کرتے پھرواپس آکر اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے]

مسجد کے باہر امام کی اقتداء کرنے کی تصویر

امام سے آگے بڑھنا

1۔ مقتدی کے لیے مشروع یہ ہے وہ امام کی اتباع کرتے ہوئے جو کام امام کرے اسکے فوراً بعد وہی کام مقتدی بھی کرے ۔

رسول ﷺ اللہ فرماتے ہیں " کہ امام کو امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اسکی اقتداء کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو آپ بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع میں جائے توآپ بھی رکوع میں چلے جاؤ اور جب وہ سجدہ میں چلا جائے تو آپ بھی سجدہ میں چلے جاؤ "۔[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

2۔ امام سے آگے بڑھنا حرام ہے اور نبی اکرم ﷺ نے اس سے سختی سے منع کرتے ہوئےفرمایا کہ " کیا تم میں سے کوئی آدمی اس سے نہیں ڈرتا کہ اگر وہ امام سے آگے پڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے سجدہ یا رکوع سے سر پہلے اٹھائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر میں اور جسم کو گدھے کے جسم میں تبدیل کر دیں گے ۔ "[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

3۔ جو غلطی سے امام سے آگے بڑھ گیا تو اس پر واجب ہے کہ وہ واپس لوٹے اور اسکی اتّباع کرے۔

ناپاک شخص کے پیچھے نماز

ناپاک [ناپاک: جو پاکی پر نہ ہو] کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہے البتہ اگر وہ اپنی ناپاکی کو نہیں جانتا تھا اور نماز ختم ہونے کے بعد پتہ چل گیا تو اس صورت میں مقتدی کی نماز ٹھیک ہے اور امام پر نماز کو واپس لوٹانا واجب ہے۔