اذان اور اقامت

32065

اذان اور اقامت کی تعریف

اذان

مخصوص کلمات کے ساتھ نماز کے داخل ہونے کے وقت کا اعلان ہے۔

اقامت

اقامت مخصوص کلمات کے ساتھ نماز کے قائم ہونے کا اعلان ہے۔

اذان اور اقامت کا حکم

1-جماعت کے حق میں

اذان پانچ فرض نمازوں کے لیے سفر و حضر دونوں حالتوں میں فرض کفایہ ہے۔ [فرض کفایہ:اس فرض کو کہتے ہیں جو ایک کی ادائیگی کی وجہ سے باقی لوگوں سے ساقط ھو جاتا ہے] اس لیے کہ وہ دونوں اسلام کے ظاہری شعائر میں سے ہیں۔

پس انکو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمای"جب نماز کا وقت آ جائے پس تم میں سے ایک اذان دے اور پھر جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔"[ یہ حدیث متفق علیہ ہے]

2-اذان اکیلے کے حق میں

سنّت :عقبہ بن عامر رضي الله عنه سے مروی ہے فرماتے ھیں میں نے رسول اللہ سے سنا فرما رہے تھے"تیرے رب کو اچھا لگتا ہے جو اپنی بکریاں چراتا ہے، [شظیہ: پہاڑ کی چوٹی میں بلند ٹکڑے کو کہتے ہیں] ایک پہاڑ کے ٹکڑے کی چوٹی میں،نماز کے لیے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ پس اللہ عزّوجل فرماتے ہیں:میرے اس بندے کی طرف دیکھو،اذان دیتا ہے اورنماز قائم کرتا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے تحقیق میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور جنّت میں داخل کر دیا ہے"[ امام نسائی نے اسکو روایت کیا ہے]

اذان کی حکمت

1۔ نماز کے وقت کے داخل ھونے کا اور اُسکی جگہ کا اعلان کرنا۔

جماعت کی نماز پر اُبھارنا۔

3۔ غفلت کرنے والوں کوتنبیہ کرنا،بھولے ہوؤں کونماز کی ادائیگی یاد دلانا جواللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔

اذان کب شروع ہوئی اور اسکا سبب؟

اذان ہجرت کے پہلے سال شروع ھوئی، اور اسکا سبب یہ ہے جب اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ کوئی ایسی نشانی رکھی جائے جس کی وجہ سے سارے لوگ نماز کا وقت پہچان سکیں۔ تو مسلمانوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا تو رات کو عبداللہ بن زیدرضي الله عنه نے خواب میں ایک آدمی کو دیکھا جس نے گھنٹی اُٹھائی ہوئی تھی تو حضرت عبداللہ بن زید رضي الله عنه نے اس آدمی کو کہا یہ گھنٹی مجھ پر بیچ دے۔ [ ناقوس:وہ گھنٹی کو کہتے ہیں]

تو اُس آدمی نے کہا آپ اسکا کیا کرو گے تو حضرت عبداللہ رضي الله عنه نے کہا ہم اسکے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف بُلائیں گے۔ اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں آپکو اس سے بہتر چیز کی طرف رہنمائی نہ کروں؟ حضرت عبداللہ نے کہا کیونں نہیں! پس اُس نے معروف اذان اور اقامت سکھلا دی۔[ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے]

حضرت عبداللہ رضي الله عنه نے فرمایا جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ کے پاس آیا اور جو میں نے دیکھا تھا اسکی خبر دی۔ رسول اللہ نے فرمایا "بے شک وہ سچا خواب ہے۔ اگر اللہ نے چاہا۔ پس بلال کے ساتھ کھڑا ہو جا اور اسے یہ کلمات سکھا۔ بےشک وہ تجھ سے زیادہ بلند آواز والا ہے"۔[ اس حدیث کو امام ابو داؤدنے روایت کیا ہے]

اذان کی فضیلت

1۔ قیامت کے روز ہر وہ چیز جس نے مؤذن کی آواز سنی ہو گی، مؤذن کے حق میں اللہ تعالیٰ کے ہاں گواہی دے گی ۔ آپ ﷺ نے فرمای"نہیں سنتا مؤذن کی آواذ کی کو کوئی جن اور نہ انسان اور نہ کوئی دوسری چیز مگر وہ اسکے لیے قیامت کے روز گواہی دے گ"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

2۔ اگر لوگ اسکی فضیلت کو جان لیں تو اس میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا "اگر لوگ اذان اور پہلی صف کی فضیلت کو جان لیں تو پھر وہ انہیں پانے کے لیے آپس میں قرعہ اندازی کیا کریں گے [الستھام: جو آدمی آگے ہونیکا مستحق ہے اسکے لیے قرعہ اندازی کو استہام کہتے ہیں]"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

اذان کے صحیح ہونے کی شرائط

1۔ یہ کہ اذان دینے والا مسلمان ہو، مرد ہو اور صاحب عقل ہو۔

2۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ اذان ترتیب کے ساتھ ہو۔

3۔ پے در پے پڑھنے والا ہو۔ اسکے کلمات کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو۔

4۔ اذان، نماز کے وقت کے داخل ہونیکے وقت ہو۔

اذان کی سنتیں

1۔ قبلہ کی طرف منہ کرنا

2۔ مؤذّن کا ناپاکیوں سے پاک ہونا۔

3۔ حیعلتین یعنی حیی علی الصلاہ اور حیی علی الفلاح میں دائیں اور بائیں متوجّہ ہونا۔

4۔ مؤذّن کا شہادت والی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھنا۔

5۔ مؤذّن اچھی اور قوی آواز والا ہونا۔

6۔ اذان کا ٹھہر ٹھہر کر کہنا ۔

اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھے

اذان اور اقامت کا طریقہ کار

1۔ اذان کے کلمات:" الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدًا رسول الله، أشهد أن محمدًا رسول الله، حَيَّ على الصلاة، حَيَّ على الصلاة، حَيَّ على الفلاح، حَيَّ على الفلاح، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله"[ اس حدیث کو امام مسلم نےروایت کیاہے]

2۔ اقامت کے کلمات:" الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدًا رسول الله،حيَّ على الصلاة، حَيَّ على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله"

جو چیزیں اذان سننے والے کے لیے مستحب ہیں۔

1۔ وہ مؤذّن والے کلمات ادا کرے، مگر اسکے قول " حَيّ على الصَّلاة، حَيّ على الفَلاح " کے وقت کہے " لا حَوْل ولا قُوَّة إِلا بالله "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

2۔ یہ کہ اذان کے بعد کہے " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إلا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا، وَبِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم رَسُولًا، وَبِالإسلام دِينًا "[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

3۔ اذان کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجے اور پھر کہے " اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

4۔ اذان اور اقامت کے درمیان اپنے لیے دعا کرے کیونکہ دُعا اس وقت رد نہیں کی جاتی۔ اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا "بے شک دُعا اذان اور اقامت کے درمیان رد نہیں کی جاتی"[روایت کیا احمد نے]

اذان اور اقامت کے احکام

1۔ دو نمازوں کو جمع کرنے کے وقت ایک اذان پر اکتفا کرے جیسے ظہر اور عصر۔ اور اقامت ہر نماز کے لیے علیحدہ کہے گا۔

2۔اگر نماز کے لیے اقامت کہی گئی لیکن نماز کو لیٹ شروع کیا گیا تو دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت نہیں۔ ۔

3۔ مؤذّن پر لازم ہے کہ وہ اذان کے الفاظ میں غلطیوں سے بچے مثلاً

ا۔ "اَللہ اَکبر کو استفہام کے ساتھ کہنا غلطی ہے"

ب۔ " الله اكبار" باء کے بعد الف کا اضافہ کرنا۔

ج۔ "اللہ و اکبر" واؤ کا اضافہ کر نا غلطی ہے۔

4۔ جب فرض نماز کھڑی ھو جائے پھر نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اگر فرض نماز کھڑی ھو گئی اور وہ نفل نماز پڑھ رہا تھا تو اگر کم باقی رہ گئی ہو توپورا کرے ورنہ توڑ دے بغیر سلام کے اور امام کے ساتھ فرض نماز میں شامل ہو جائے۔

5۔ اچھے اور برے میں تمیز کرنے والےبچے کی اذان صحیح ہے۔

6۔ نیند یا بھول کی وجہ سے فوت شُدّہ نمازوں کے لیے اذان اور اقامت کہنا نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے "ایک دفعہ صحابہ صبح کی نماز سے سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ تو آپ ﷺ نے حضرت بلال رضي الله عنه کو حکم دیا تو انھوں نے اذان دی۔ پھر انھوں نے وضو کیا اور فجر کی دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر بلال رضي الله عنه کو اقامت کہنے کاحکم دیا اور صحابہ کرام کو صبح کی نماز پڑھائی۔"[ روایت کیا ابوداؤد نے]

7۔ اگراذان کے وقت کوئی آدمی مسجد میں ہو تو بغیر کسی عذر کے نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ حضرت ابوحریرہ رضي الله عنه فرماتے ہیں "کہ رسول ﷺ اللہ نے ہمیں حکم دیا کو اگراذان کے وقت تم مسجد میں ہوئے تو کوئی بھی آدمی نماز پڑھےبغیر مسجد سے نہ نکلے"۔"[ روایت کیا احمد نے]

8۔ مؤذّن کو چاہیے کہ شہادتین میں اپنی آواز کو پست رکھے۔ پھرانکو بلند آواز سے لوٹائے۔ یہی سُنّت سے ثابت ہے۔[ اس حدیث کو امام ابو داؤدنے روایت کیا ہے]

مناسب نہیں ہے

1۔ اذان میں اعراب کی غلطی کرنا اور گانے کی سی سُر لگانا جو حروف کی تبدیلی کی طرف لے جائے اور حرکات، سکنات اور کمی اور زیادتی کی طرف لے جائے۔

2۔ اذان کے بعد آپ ﷺ پر بلند آواز کے ساتھ صلاۃ و سلام بھیجنا۔

3۔ بعض کہتے ھیں ((قد قامت الصّلاة)) کے بعد ((أقامها الله و أدامها)) کہنا۔

- فجر کی اذان :

فجر کے لیے دو اذانیں مشروع ہیں۔

1۔ وقت کے داخل ہونے سے پہلے

2۔ نماز کے وقت کی خبر دینے کے لیے تو پہلی اذان میں مشروع یہ ہے کہ مؤذّن دو مرتبہ الصلاة خيرمن النوم کہے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا "جب آپ فجر کی پہلی اذان دو تو کہو " الصلاة خيرمن النوم "[روایت کیا ابوداؤد نے]

اذان شیطان کو بھگاتی ہے

ابو ہریرہ رضي الله عنهسے روایت ہے، فرماتے ہیں رسول اللہ نے فرمای"جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان گرز مارتے ہوئے پیٹھ دکھا کر بھاگ جاتا ہے اور بھاگتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اسے اذان سنائی نہیں دیتی ۔ جب اذان پوری ھو جاتی ہے واپس آ جاتا ہے پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو بھاگ جاتا ہے۔ جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے۔اور نمازی کے دل میں مختلف قسم کے خیالات ڈالنا شروع کر دیاتا ہے اور جب تک اسے بہکا نہیں دیتا خیالات ڈالتا چلا جاتا ہے۔"[ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]

فائدے

1۔ اذان کے بعد اور نماز شروع ہونے سے پہلے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو اذان کے بعد مسجد چھوڑ کر جا رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے ابوالقاسم (محمد ﷺ 18) کی نا فرماتی کی۔

2۔ نوافل کے لیےکوئی اذان اور اقامت نہیں ہےاور نہ ہی عیدین کی نماز، نہ استسقا،ء نہ جنازے کی نماز کے لیے ،نہ ہی سورج اور چاندگرہن والی نماز کے لیے اذان اور اقامت ہےالبتہ چاند گرہن والی نماز میں "الصلا ۃ جامعہ" کہے۔

3۔ مؤذّن بارش میں یا سخت سردی میں کہے " ألا صلُّوا في رحالكم " (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)